جب اسلام کی دعوت جزیرۃ العرب سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلی اور کثیر آبادی اسلام کے سایہ امن و عاطفت میں آئی تو قرآن مجید کا سمجھنا، حدیث سے واقف ہونا، نت نئے مسائل کا استنباط کرنا اور بدلتے ہوئے حالات میں اسلام کی ترجمانی اور مسلمانوں کی رہنمائی کا فرض انجام دینا علمائے کرام کے لیے فرض لازم ٹھیرا۔ اس کے لیے نہ ترجمہ کافی تھا، نہ عربی زبان کی سرسری واقفیت کام دے سکتی تھی بلکہ اس سے ایسی گہری فنی واقفیت ضروری تھی جس کی بدولت غلطی کا امکان کم سے کم اور کتاب وسنت کے علم و فہم اور صحیح ترجمانی کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت پیدا ہو، اس مقصد کے تحت عربی کے قواعد و ضوابط پر کامل عبور شرط لازم کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب صرف و نحو کی تدوین اور اس سلسلے میں کتابوں کی تصنیف کی ضرورت پیش آئی۔ اس سلسلہ میں جہاں عربی علما نے بہت سی قیمتی تصنیف فرمائی وہیں عجمی علما بھی ان سے کسی طور پیچھے نہیں رہے اور صرف و نحو کے قواعد پر مشتمل بیش بہا کتب تحریر فرمائیں۔ زیر نظر کتاب ’علم النحو‘ بھی اس سلسلہ کی ایک اہم کتاب ہے جو مدارس کی ابتدائی کلاسوں کے طلبہ کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ اور اکثر پاکستانی مدارس میں طلبہ کو یہی کتاب سبقاً پڑھائی جاتی ہے۔ کتاب کے مصنف مولانا مشتاق احمد چرتھاولی ہیں جنھوں نے نہایت آسان انداز میں قواعد نحو کو ترتیب دیا ہے۔ یہ کتاب بہت سالوں قبل لکھی گئی اس لیے اس کا اسلوب بھی خاصا پرانا ہوچکا ہے۔ دور جدید کے علما نے علم نحو و صرف پر جدید انداز میں کتب تالیف فرمائی ہیں جن کی اہمیت و افادیت اس کتاب سے بھی بڑھ کر ہے۔(ع۔م)