اللہ رب العزت ہمارے خالق حقیقی ہیں اور ہم پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات ہیں جن میں سے سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہماری دنیا وآخرت کی ہر قسم کی اصلاح وفلاح اور نجات کے لیے نبوت ورسالت کا ایک مقدس اور پاکیزہ سلسلہ شروع کیا جو کہ ہمارے نبی جناب محمد الرسول ﷺ پر آ کر ختم ہوا‘ چونکہ نبوت کا سلسلہ ختم ہونا تھا اس لیے ناگزیر تھا کہ آپ ﷺ کو ایک ایسی آخری اور مکمل تعلیم وہدایت دے کر بھیجا جاتا جو رہتی دنیا تک کافی رہتی‘ اس لیے نبی ﷺ کو عنایت کی جانے والی اس ربانی تعلیم وہدایت کے بنیادی طور پر دو حصے ہیں‘ ایک قرآن مجید جو لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے کلام اللہ ہے دوسرے نبی ﷺ کے وہ ارشادات اور آپ ﷺ کی وہ قولی اور عملی تعلیمات ہیں جو نبی ﷺ اللہ کے نبی رسول اور نمائندے ہونے کی حیثیت سے امت کو دیتے تھے اور یہ تعلیمات قیامت تک کے لیے تھی اس لیے ان کی حفاظت وکتابت کے لیے بہت احتیاط کرتے ہوئے بہت سی کتب احادیث تالیف کی گئی ہیں جن میں سے ایک مختصر کتاب ’’بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام‘‘ کے نام سے حافظ ابن حجر کی معروف ہے
اس کتاب میں نہایت عمدہ اسلوب اپنایا گیا ہے‘ اس کتاب میں ڈیڑھ ہزار سے زائد احادیث ہیں اور اس کی شرح کو مؤلف نے علم کا ایک سمندر بنا دیا ہے اور یہ عربی کتاب چھ جلدوں پر محیط ہے مگر اس کتاب کو مختصر کیا گیا ہے کیونکہ اتنی ضخیم کتاب سے سب کے لیے استفادہ اٹھانا مشکل تھا اس لیے اختصار کرتے ہوئے عربی متن کے من وعن ترجمہ کا التزام (احادیت کے ترجمہ میں عموماً الفاظ کے ترجمہ تک ہی محدود رہا جاتا ہے) اور عربی اور اردو کی تعبیر واسلوب میں بعینہ یکسانیت ہے اور اس کتاب میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ زبان کی روانی اور نرمی متاثر نہ ہو بلکہ قدرے ادبیت اور لذت پیدا ہو
اس کتاب میں مسائل کی تفریق وتفصیل اور عناوین کا قیام اور فنون کی تجزی کا بھی خیال رکھا گیا ہے‘ سند میں کلام کو’’روایۃ الحدیث‘‘ متن کی نکارت کو’’درایۃ الحدیث‘‘ حدیث کے قصہ کو’’قصۂ حدیث‘‘ اور حدیث کے خلاصے کو’’خلاصۂ حدیث‘‘کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ اور اس کتاب میں بعض اضافے بھی ہیں مثلاً مضمون حدیث‘نحوی تراکیب‘اماکن اور محاورات کی وضاحت وغیرہ