دین اسلام میں حلال ذرائع سے کمائی جانے والی دولت کو معیوب قرار نہیں دیا گیا چاہے اس کی مقدار کتنی ہی ہو۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ دولت انسان کو بارگاہ ایزدی سے دور نہ کرے۔ فی زمانہ جہاں امت مسلمہ کو دیگر لا تعداد مسائل کا سامنا ہے وہیں امت کے سواد اعظم کو فکر معاش بری طرح لاحق ہے۔ اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد کا باطل گمان یہ ہے ہےکہ قرآن وسنت کی تعلیمات کی پابندی رزق میں کمی کا سبب ہے اس سے زیادہ تعجب اور دکھ کی بات یہ ہے کہ کچھ بظاہر دین دار لوگ بھی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ معاشی خوشی حالی اور آسودگی کے حصول کےلیے کسی حد تک اسلامی تعلیمات سے چشم پوشی کرنا ضروری ہے۔ یہ نادان لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ کائنات کے مالک وخالق الله جل جلالہ کے نازل کردہ دین میں جہاں اُخروی معاملات میں رشد وہدایت کار فرما ہے وہاں اس میں دنیوی امور میں بھی انسانوں کی راہنمائی کی گئی ہے جس طرح اس دین کا مقصد آخرت میں انسانوں کیو سرفراز وسربلند کرنا ہے اسی طرح الله تعالیٰ نے یہ دین اس لیے بھی نازل فرمایا ہے کہ انسانیت اس دین سے وابستہ ہو کر دنیا میں بھی خوش بختی اور سعادت مندی کی زندگی بسر کرے ۔ کسبِ معاش کے معاملے میں اللہ تعالیٰ او ران کے رسول کریم ﷺ نے بنی نوع انسان کو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے نہیں چھوڑا بلکہ کتاب وسنت میں رزق کے حصول کےاسباب کو خوب وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے۔ اگر انسانیت ان اسباب کو اچھی طرح سمجھ کر مضبوطی سے تھام لے اور صحیح انداز میں ان سے استفادہ کرے تو اللہ مالک الملک جو ’’الرزاق ذو القوۃ المتین‘‘ ہیں لوگوں کےلیے ہر جانب سے رزق کے دروازے کھول دیں گے۔ آسمان سے ان پر خیر وبرکات نازل فرمادیں گے اور زمین سے ان کے لیے گوناگوں اور بیش بہا نعمتیں اگلوائیں گے۔ الله تعالیٰ رزق کے عطا کرنے میں کسی سبب کے محتاج نہیں، لیکن انہوں نے اپنی حکمت سے حصولِ رزق کے کچھ معنوی ومادی اسباب بنا رکھے ہیں۔ انہی معنوی اسباب میں سے ایک نہایت موثر، انتہائی زور دار او ربہت بڑی قوت والا سبب دعا ہے
زیر تبصرہ کتاب ’’رزق اور اس کی دعائیں‘‘ مصنف کتب کثیرہ محترم جناب ڈاکٹر فضل الٰہی کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے قرآن وسنت کی روشنی میں رب کریم کے رزاق ہونے اور حضرات انبیاء اور امام الانبیاء ﷺ کی رزق طلب کرنے کے حوالے سے کچھ باتوں اور دعاؤں کو حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔